ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہیم نام کا ایک غریب آدمی رہتا تھا۔ اس کا گھر کچی اینٹوں اور مٹی سے بنا ہوا تھا، جس کی چھت پر کھجور کے پتے پڑے تھے۔ رہیم کے پاس دو بکریاں تھیں جن کا دودھ بیچ کر وہ اپنے چار بچوں اور بیوی کا پیٹ پالتا تھا۔ ہر روز صبح سویرے وہ کھیتوں میں مزدوری کرنے جاتا، شام کو تھکا ہارا لوٹتا، مگر اس کی محنت بھی اس کی غربت کو دور نہ کر پاتی۔ پھر بھی وہ کبھی مایوس نہ ہوا۔ اس کا ایمان تھا کہ محنت اور ایمانداری کا پھل ضرور ملتا ہے۔
ایک دن گاؤں میں خبر پھیلی کہ کریم، جو اس گاؤں کا ہی ایک امیر زمیندار تھا، بیرون ملک سے واپس آ رہا ہے۔ کریم اور رہیم بچپن کے دوست تھے۔ دونوں ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے، ایک ہی دریا کنارے کھیلتے تھے۔ لیکن جب کریم کے والد نے اچانک دولت کمائی تو وہ شہر چلے گئے، پھر بیرون ملک جا بسے۔ سالوں بعد اب کریم واپس آیا تھا۔
رہیم نے جب یہ سنا تو اس کے دل میں پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ جانتا تھا کہ اب کریم کی حیثیت اس سے بہت بلند ہے، مگر پھر بھی اسے اپنے دوست سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ اگلے دن وہ کریم کے گھر پہنچا۔ کریم کا گھر بڑی حویلی جیسا تھا، جس کے باہر باغ تھے ۔ رہیم نے دروازے پر دستک دی۔
کون ہے؟ ایک
نوکر نے دروازہ کھولا۔
میں رہیم ہوں،
کریم کا پرانا دوست۔
نوکر نے اسے غور سے دیکھا، پھر اندر جا کر اطلاع دی۔ کچھ دیر بعد کریم خود باہر آیا۔ اس کی شکل میں بچپن کی شرارتیں باقی تھیں، مگر لباس اور انداز میں امیری جھلکتی تھی۔
رہیم واقعی تم
ہو؟ کریم نے خوشی سے گلے لگا لیا۔
رہیم نے شرماتے ہوئے کہا، ہاں بھائی، بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی۔
دونوں اندر بیٹھے۔
کریم نے رہیم کی حالت دیکھی تو اس کا دل بھر آیا۔ اس نے پوچھا، تمہارا گزارہ کیسے
چل رہا ہے؟
رہیم نے مسکرا کر جواب دیا، اللہ کا شکر ہے۔
مگر کریم سمجھ گیا کہ یہ مسکراہٹ حقیقت چھپا رہی ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دوست کی مدد کرے گا، مگر ایسے طریقے سے کہ رہیم کی خودداری مجروح نہ ہو۔
اگلے دن کریم رہیم کے گھر پہنچا۔ رہیم کی بیوی نے چائے بنائی، اور کریم نے گھر کی سادگی دیکھی۔ اس نے کہا، رہیم، تمہیں یاد ہے ہم بچپن میں کھیتوں میں کھیلتے تھے؟
دونوں ہنس پڑے۔ پھر کریم نے سنجیدہ ہو کر کہا، میں نے سنا ہے تمہارے پاس چھوٹا سا کھیت ہے۔ اگر اجازت دو تو میں تمہاری فصل کو بہتر بنانے میں مدد کروں۔
رہیم حیران ہوا۔ کریم نے سمجھایا، میں جدید بیج اور کھاد لا سکتا ہوں۔ تم محنت کرو، باقی میں دیکھتا ہوں۔ ہم شراکت کریں گے۔
رہیم نے سوچا، یہ تو اس کی خودداری کے خلاف نہیں۔ اس نے ہاں کر دی۔
کچھ ہی ہفتوں میں کریم نے اعلیٰ قسم کے بیج اور کھاد مہیا کی۔ رہیم نے دن رات محنت کی۔ فصل نے جلد ہی رنگ دکھایا۔ گندم کی بلندی اور چمک دیکھ کر پورا گاؤں حیران رہ گیا۔ جب فصل بازار میں فروخت ہوئی تو رہیم نے پہلی بار اتنی آمدنی کمائی کہ اس کے آنسو نکل آئے۔
کریم نے کہا، یہ تمہاری محنت کا نتیجہ ہے، دوست۔ اب تم اپنے گھر کی مرمت کر سکتے ہو اور بچوں کو اچھے اسکول بھیج سکتے ہو۔
رہیم کی زندگی بدل گئی۔ اس کا گھر پکا ہو گیا، بچوں نے نیا اسکول جوائن کیا۔ مگر سب سے بڑھ کر، اس کی دوستی کریم کے ساتھ اور گہری ہو گئی۔ وہ سمجھ گیا کہ اصل دولت پیسے نہیں، بلکہ انسانیت اور ہمدردی ہے۔
کریم نے گاؤں میں ایک چھوٹا اسکول بھی بنوایا، جہاں غریب بچے مفت پڑھ سکتے تھے۔ رہیم اس میں معاون بنا، اور دونوں دوستوں نے مل کر گاؤں کی ترقی میں حصہ ڈالا۔
ایک دن رہیم نے
کریم سے پوچھا، تم نے میری اتنی مدد کیوں کی؟
کریم مسکرایا، کیونکہ دوستی کا مطلب ہے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا۔ تم نے بچپن میں میرا ساتھ دیا، آج میری باری تھی۔
اس دن رہیم نے جان لیا کہ امیری اور غریبی صرف حالات ہیں۔ اصل چیز دل کی دولت ہے، جو محبت اور ہمدردی سے بڑھتی ہے۔
اخلاقی سبق: سچی
دوستی کبھی حالات کی قید میں نہیں ہوتی۔ ہمدردی اور عزت کے ساتھ دی گئی مدد ہی
انسانیت کو سنوارتی ہے۔ دولت سے بڑھ کر وہ ہاتھ ہے جو کسی کو سنبھالنے کے لیے بڑھایا
جائے۔
Comments
Post a Comment