ایک دور دراز گاؤں کے کنارے ایک بلند اور پراسرار پہاڑ کھڑا تھا جسے
لوگ سچ بولنے والا پہاڑ کہتے تھے۔ بزرگوں کی کہانیوں کے مطابق یہ پہاڑ ہر اس شخص کی
بات کی سچائی کو پرکھتا تھا۔ جو اس کے سامنے آتا اگر کوئی جھوٹ بولتا تو پہاڑ اس کی
آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتا۔ لیکن جو سچ بولتا اس کی مراد پوری ہوتی گاؤں
والے اس پہاڑ سے ڈرتے بھی تھے اور احترام بھی کرتے تھے۔ کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی۔
کہ وہ اس کی طاقت کو آزمائے یہاں تک کہ ایک دن ایک لالچی آدمی جس کا نام رحمن تھا
نے سن رکھا تھا۔ کہ پہاڑ کے نیچے خزانہ دبا ہے۔ وہ راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھتا
ہوا پہاڑ کے دامن میں پہنچ گیا۔
رحمن نے کدال اٹھائی۔ اور زمین کھودنی شروع کر دی۔ اسے یقین تھا کہ
خزانہ چند فٹ نیچے ہی مل جائے گا۔ لیکن جب اس نے گڑھا کھودا۔ تو کچھ نہ ملا۔ اسی
دوران پہاڑ کی طرف سے ایک گہری آواز گونجی تو یہاں کیوں آیا ہے۔ رحمن نے ڈرتے ڈرتے
جواب دیا۔ میں تو یہاں پودے لگانے آیا ہوں۔ یہ جھوٹ تھا۔ اور پہاڑ نے فوراً محسوس
کر لیا اگلے ہی لمحے رحمن کی آواز غائب ہو گئی۔ وہ ہاتھ ہلا کر اشارے کرتا رہ گیا۔
لیکن کچھ بول نہ سکا خزانہ بھی اسے کبھی نہ ملا۔
کچھ ہفتے بعد ایک غریب لڑکا علی جو اپنی بیمار ماں کے ساتھ رہتا تھا۔
گاؤں کے دوسری طرف واقع جنگل سے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرنے گیا۔ ماں کی تکلیف بڑھ رہی
تھی۔ اور وہ دوا کے لیے بے تاب تھی۔ علی نے سارا دن جنگل میں گزارا۔ لیکن ضروری جڑی
بوٹیاں نہ مل سکیں۔ شام ہوتے ہوتے وہ تھک گیا۔ اور پہاڑ کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔
اس کی پیاس نے اتنا تنگ کیا۔ کہ اس نے پہاڑ کی طرف دیکھتے ہوئے دعا مانگی۔ اے پہاڑ
اگر تو سچ بولتا ہے۔ تو مجھے پانی دے دے میں نے ماں کے لیے دوا ڈھونڈنی ہے۔
پہاڑ نے گرجدار آواز میں پوچھا۔ تو کیا چاہتا ہے۔ علی نے بے ساختہ
جواب دیا صرف ایک گھونٹ پانی تاکہ میں ماں تک دوا پہنچا سکوں۔ یہ سنتے ہی پہاڑ کے
پاس سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ علی نے پانی پیا۔ اور جڑی بوٹیاں اکٹھی کر کے گھر پہنچ
گیا۔ اس کی ماں نے دوا استعمال کی تو اس کی صحت بہتر ہونے لگی۔
گاؤں والوں نے جب یہ واقعہ سنا۔ تو حیرت میں پڑ گئے۔ انہوں نے علی سے
پوچھا۔ تمہیں ڈر نہیں لگا۔ پہاڑ کے سامنے بات کرتے ہوئے۔ علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں نے سچ بولا اور سچ نے میری مدد کی۔ یہ بات گاؤں میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگوں
نے سوچا کہ شاید یہ پہاڑ صرف سچے دلوں کی سنتا ہے۔
اسی دوران گاؤں میں ایک اور مسئلہ پیدا ہوا۔ ایک بڑا تالاب جو پانی
کا واحد ذریعہ تھا۔ سوکھنے لگا کسانوں کی فصلیں مرجھا رہی تھیں۔ اور جانور بے حال
ہو گئے تھے۔ گاؤں کے بزرگوں نے فیصلہ کیا۔ کہ پہاڑ سے مدد مانگی جائے۔ سب نے مل کر
علی کو بھیجا۔ کیونکہ وہ پہلے بھی پہاڑ سے بات کر چکا تھا۔
علی پہاڑ کے سامنے کھڑا ہوا۔ اور بولا ہمارا تالاب سوکھ رہا ہے۔ اگر
تمہاری طاقت ہے تو ہماری مدد کرو۔ پہاڑ نے آواز دی تم سب مل کر کیوں نہیں کہتے۔ علی
نے واپس جا کر سب کو بتایا۔ کہ پہاڑ سب کی بات سننا چاہتا ہے۔ گاؤں والے اکٹھے
ہوئے اور سچے دل سے پہاڑ کے سامنے اپنی پریشانی بیان کی۔ اگلی صبح تالاب میں پانی
بھر گیا۔ اور گاؤں کی زمینیں پھر سے سرسبز ہو گئیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ گاؤں والوں نے سیکھ لیا کہ سچ بولنا ہی ہر مسئلے
کا حل ہے۔ جب بھی کوئی مشکل آتی۔ وہ پہاڑ کے سامنے اپنے دل کی بات کہتے۔ اور راستہ
نکل آتا۔ ایک دن گاؤں میں ایک اجنبی تاجر آیا۔ جس نے پہاڑ کے بارے میں سن رکھا تھا۔
وہ دولت کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ اس نے پہاڑ کے سامنے جھوٹ بولا۔ میں یہاں
غریبوں کی مدد کے لیے آیا ہوں۔ پہاڑ نے اس کی آواز چھین لی۔ اور تاجر خالی ہاتھ
واپس چلا گیا۔
اس کے برعکس ایک بوڑھی عورت جس کا بیٹا جنگل میں کھو گیا تھا۔ روتی
ہوئی پہاڑ کے پاس پہنچی اور بولی میرا اکلوتا بیٹا مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔ پہاڑ نے اس
کے سچے درد کو محسوس کیا۔ اور ایک راستہ دکھایا۔ جہاں اس کا بیٹا محفوظ کھڑا تھا۔
آہستہ آہستہ یہ پہاڑ لوگوں کے لیے امید کی علامت بن گیا۔ جو سچائی کی
طاقت کو سمجھتے۔ وہ کبھی نہیں ڈرتے تھے۔ گاؤں کی خوشحالی دیکھ کر پاس کے علاقوں سے
بھی لوگ یہاں آنے لگے۔ سب یہ سبق لے کر جاتے۔ کہ جھوٹ کی کوئی جگہ نہیں ہوتی سچائی
ہی انسان کو مشکلات سے نکالتی ہے۔
ایک دن علی نے پہاڑ سے پوچھا تمہاری طاقت کا راز کیا ہے۔ پہاڑ نے
جواب دیا میں کوئی راز نہیں ہوں۔ میں صرف ایک آئینہ ہوں جو انسان کے دل کو دکھاتا
ہوں۔ جو سچ بولتا ہے۔ اس کا دل روشن ہوتا ہے۔ اور جو جھوٹ بولتا ہے۔ اس کی تاریکی
خود اسے نگل لیتی ہے۔
یہ کہانی آج بھی اس گاؤں میں سنائی جاتی ہے۔ جہاں لوگ سچ بولنے والے
پہاڑ کو اپنا محافظ مانتے ہیں۔ اور یہ یقین رکھتے ہیں۔ کہ سچائی کبھی انسان کو
تنہا نہیں چھوڑتی۔
Comments
Post a Comment