Skip to main content

محنت کی روشنی ایک چھوٹے کسان کی کامیابی کی کہانی

  ایک دور دراز کے گاؤں میں ایک ننھا سا کسان رہتا تھا۔ جس کا نام رحمان تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے کھیت میں دن رات محنت کرتا تھا۔ اس کے پاس نہ تو بڑے بڑے ٹریکٹر تھے نہ ہی جدید آلات۔ وہ صرف اپنے ہاتھوں اور سادہ اوزاروں پر انحصار کرتا تھا۔ رحمان کا کھیت چھوٹا تھا۔ لیکن اس کی محنت بہت بڑی تھی۔ وہ صبح سویرے اٹھتا اور شام تک کھیت میں کام کرتا۔ اس کی محنت کا مقصد صرف ایک تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو اچھی زندگی دے سکے۔ رحمان کے گھر میں اس کی بیوی اور دو چھوٹے بچے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بچے اچھے اسکول میں پڑھیں۔ اور انہیں کبھی بھوک یا تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس لیے وہ ہر روز اپنے کھیت میں بیج بوتا۔ پانی دیتا۔ اور فصلوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس کا کھیت گاؤں کے کنارے پر ایک ندی کے قریب تھا جہاں سے وہ پانی لے کر اپنی فصلوں کو سیراب کرتا تھا۔ مگر اس سال موسم نے ساتھ نہ دیا بارشیں کم ہوئیں۔ اور ندی کا پانی بھی خشک ہونے لگا۔ رحمان کو فکر ہوئی کہ اگر اس نے اپنی فصلوں کو بچانے کا کوئی راستہ نہ نکالا تو اس کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ وہ رات کو سوچتا کہ کیا کرے۔ ایک دن اس نے گاؤں کے بزرگوں سے مشور...

سچے پرندے کی سرگزشت

 

سچے پرندے کی سرگزشت



سچے پرندے کی سرگزشت 

 

جنگل کی گہرائیوں میں ایک قدیم درخت کی بلندیوں پر ایک چھوٹا سا پرندہ رہتا تھا۔ اس کے پنکھوں کا رنگ فیروزی تھا جس پر سنہری دھاریاں نمودار ہوتی تھیں۔ وہ نہ صرف خوبصورت تھا بلکہ اس کی آواز میں بھی ایک سحر تھا جو سننے والوں کے دل کو چھو لیتی۔ لیکن اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی سچائی تھی۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ اس کے اس وصف کی وجہ سے جنگل کے تمام جانور اسے سچا پرندہ کہہ کر پکارتے تھے۔ 

 

ایک دن کی بات ہے جب جنگل میں موسلا دھار بارش ہوئی۔ ہر طرف کیچڑ اور پانی ہی پانی تھا۔ پرندہ اپنے گھونسلے میں بیٹھا بارش تھمنے کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس نے نیچے زمین پر ایک بوڑھے ہرن کو بے چینی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پایا۔ ہرن کی آنکھوں میں گہرا دکھ تھا۔ پرندہ فوراً نیچے اُترا اور پوچھا۔ چچا ہرن آپ کو کیا تکلیف ہے؟ کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟ 

 

ہرن نے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔ بیٹا میرا قیمتی موتی گم ہو گیا ہے۔ یہ موتی میری مرحوم بیوی کی یادگار تھا۔ میں نے اسے ہمیشہ اپنے گلے میں لٹکایا تھا لیکن آج کیچڑ میں پھسلتے ہوئے ڈوری ٹوٹ گئی اور موتی کہیں گم ہو گیا۔ پرندے نے ہرن کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ گھبرائیں نہیں چچا میں آپ کا موتی ڈھونڈنے میں ضرور مدد کروں گا۔ 

 

اس نے اڑان بھری اور درختوں، جھاڑیوں، اور کیچڑ بھری زمین کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ کافی دیر تک تلاش کرنے کے بعد اس کی نظر ایک بڑے درخت کی جڑوں میں پھنسے ہوئے موتی پر پڑی۔ موتی پر کیچڑ لگا ہوا تھا مگر اس کی چمک کم نہیں ہوئی تھی۔ پرندے نے اپنی چونچ سے موتی کو نکالا اور خوشی سے ہرن کے پاس لے گیا۔ ہرن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس نے پرندے کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ تم سچ میں مہربان ہو تمہاری سچائی اور مدد نے میری یادگار واپس کر دی۔ 

 

کچھ ہفتوں بعد جنگل کے بادشاہ شیر نے سنا کہ ایک پرندہ ہر کسی کی مدد کرتا ہے اور کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ شیر کو یقین نہیں آیا۔ اس نے اپنے مشیر کو بلایا اور کہا۔ کیا واقعی کوئی ایسا پرندہ بھی ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا؟ میں اس کا امتحان لینا چاہتا ہوں۔ 

 

اگلے دن شیر نے جنگل کے تمام جانوروں کو ایک میدان میں جمع کیا۔ پرندے کو بھی بلوایا گیا۔ شیر نے گرج دار آواز میں کہا۔ اے پرندے میں نے سنا ہے تم بہت سچے ہو۔ لیکن میں تمہاری سچائی پر یقین نہیں کرتا۔ اگر تم واقعی سچے ہو تو میرے تین سوالوں کے سیدھے جواب دو۔ اگر جواب صحیح ہوئے تو میں تمہیں انعام دوں گا ورنہ سزا 

 

پرندے نے بے خوفی سے کہا۔ ضرور پوچھیے بادشاہ سلامت۔ شیر نے پہلا سوال کیا۔ کیا تم نے کبھی کسی کی چوری دیکھی ہے؟ پرندے نے جواب دیا۔ جی ہاں میں نے ایک بار لومڑی کو کسی کے انڈے چراتے دیکھا تھا۔ شیر نے دوسرا سوال پوچھا۔ کیا تم نے کبھی کسی کو جھوٹ بولتے سنا ہے؟ پرندے نے کہا۔ جی ہاں کل ہی میں نے ایک بندر کو جھوٹ بول کر اپنے بھائی کو دھوکہ دیتے دیکھا۔ شیر نے تیسرا سوال کیا۔ کیا تم نے کبھی خود جھوٹ بولا ہے؟ 

 

تمام جانوروں نے سانس روک لی۔ پرندے نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ نہیں بادشاہ سلامت میں نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ شیر غرایا۔ تم جھوٹ بول رہے ہو کوئی بھی اتنا کامل نہیں ہوتا۔ پرندے نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔ میں کامل نہیں ہوں۔ میں نے کبھی کسی کو تکلیف دی ہو تو معاف کر دیجیے گا۔ لیکن جھوٹ بولنا تو دور، میں نے کبھی جھوٹ کا خیال بھی دل میں نہیں لایا۔ 

 

اتنے میں لومڑی اور بندر جو وہاں موجود تھے، شرمندہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ لومڑی نے کہا۔ بادشاہ سلامت یہ پرندہ سچ کہہ رہا ہے۔ میں نے ہی انڈے چرائے تھے۔ بندر نے بھی اعتراف کیا۔ میں نے اپنے بھائی کو دھوکہ دیا تھا۔ 

 

شیر حیران رہ گیا۔ اس نے پرندے سے معافی مانگی اور کہا۔ تم سچ میں ایماندار ہو۔ آج تم نے سب کو سکھایا کہ سچائی ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس نے پرندے کو جنگل کا مشیرِ صداقت مقرر کیا اور حکم دیا کہ آج کے بعد ہر مشکل فیصلے میں پرندے کی رائے لی جائے۔ 

 

کہانی کا یہ سبق ہے کہ سچائی چھوٹی ہو یا بڑی، وہ ہمیشہ فتح یاب ہوتی ہے۔ یہ کہانی نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کو بھی سکھاتی ہے کہ ایمانداری کبھی مشکل راستہ دکھائے تو بھی اس پر قائم رہنا چاہیے۔ 

 

Comments

Popular posts from this blog

محنت کی روشنی ایک چھوٹے کسان کی کامیابی کی کہانی

  ایک دور دراز کے گاؤں میں ایک ننھا سا کسان رہتا تھا۔ جس کا نام رحمان تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے کھیت میں دن رات محنت کرتا تھا۔ اس کے پاس نہ تو بڑے بڑے ٹریکٹر تھے نہ ہی جدید آلات۔ وہ صرف اپنے ہاتھوں اور سادہ اوزاروں پر انحصار کرتا تھا۔ رحمان کا کھیت چھوٹا تھا۔ لیکن اس کی محنت بہت بڑی تھی۔ وہ صبح سویرے اٹھتا اور شام تک کھیت میں کام کرتا۔ اس کی محنت کا مقصد صرف ایک تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو اچھی زندگی دے سکے۔ رحمان کے گھر میں اس کی بیوی اور دو چھوٹے بچے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بچے اچھے اسکول میں پڑھیں۔ اور انہیں کبھی بھوک یا تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس لیے وہ ہر روز اپنے کھیت میں بیج بوتا۔ پانی دیتا۔ اور فصلوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس کا کھیت گاؤں کے کنارے پر ایک ندی کے قریب تھا جہاں سے وہ پانی لے کر اپنی فصلوں کو سیراب کرتا تھا۔ مگر اس سال موسم نے ساتھ نہ دیا بارشیں کم ہوئیں۔ اور ندی کا پانی بھی خشک ہونے لگا۔ رحمان کو فکر ہوئی کہ اگر اس نے اپنی فصلوں کو بچانے کا کوئی راستہ نہ نکالا تو اس کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ وہ رات کو سوچتا کہ کیا کرے۔ ایک دن اس نے گاؤں کے بزرگوں سے مشور...

سچ بولنے والا پہاڑ

  ایک دور دراز گاؤں کے کنارے ایک بلند اور پراسرار پہاڑ کھڑا تھا جسے لوگ سچ بولنے والا پہاڑ کہتے تھے۔ بزرگوں کی کہانیوں کے مطابق یہ پہاڑ ہر اس شخص کی بات کی سچائی کو پرکھتا تھا۔ جو اس کے سامنے آتا اگر کوئی جھوٹ بولتا تو پہاڑ اس کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتا۔ لیکن جو سچ بولتا اس کی مراد پوری ہوتی گاؤں والے اس پہاڑ سے ڈرتے بھی تھے اور احترام بھی کرتے تھے۔ کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی۔ کہ وہ اس کی طاقت کو آزمائے یہاں تک کہ ایک دن ایک لالچی آدمی جس کا نام رحمن تھا نے سن رکھا تھا۔ کہ پہاڑ کے نیچے خزانہ دبا ہے۔ وہ راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھتا ہوا پہاڑ کے دامن میں پہنچ گیا۔     رحمن نے کدال اٹھائی۔ اور زمین کھودنی شروع کر دی۔ اسے یقین تھا کہ خزانہ چند فٹ نیچے ہی مل جائے گا۔ لیکن جب اس نے گڑھا کھودا۔ تو کچھ نہ ملا۔ اسی دوران پہاڑ کی طرف سے ایک گہری آواز گونجی تو یہاں کیوں آیا ہے۔ رحمن نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔ میں تو یہاں پودے لگانے آیا ہوں۔ یہ جھوٹ تھا۔ اور پہاڑ نے فوراً محسوس کر لیا اگلے ہی لمحے رحمن کی آواز غائب ہو گئی۔ وہ ہاتھ ہلا کر اشارے کرتا رہ گیا۔ لیکن کچھ بول نہ...