ایک دور دراز کے گاؤں میں ایک ننھا سا کسان رہتا تھا۔ جس کا نام رحمان تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے کھیت میں دن رات محنت کرتا تھا۔ اس کے پاس نہ تو بڑے بڑے ٹریکٹر تھے نہ ہی جدید آلات۔ وہ صرف اپنے ہاتھوں اور سادہ اوزاروں پر انحصار کرتا تھا۔ رحمان کا کھیت چھوٹا تھا۔ لیکن اس کی محنت بہت بڑی تھی۔ وہ صبح سویرے اٹھتا اور شام تک کھیت میں کام کرتا۔ اس کی محنت کا مقصد صرف ایک تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو اچھی زندگی دے سکے۔ رحمان کے گھر میں اس کی بیوی اور دو چھوٹے بچے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بچے اچھے اسکول میں پڑھیں۔ اور انہیں کبھی بھوک یا تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس لیے وہ ہر روز اپنے کھیت میں بیج بوتا۔ پانی دیتا۔ اور فصلوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس کا کھیت گاؤں کے کنارے پر ایک ندی کے قریب تھا جہاں سے وہ پانی لے کر اپنی فصلوں کو سیراب کرتا تھا۔ مگر اس سال موسم نے ساتھ نہ دیا بارشیں کم ہوئیں۔ اور ندی کا پانی بھی خشک ہونے لگا۔ رحمان کو فکر ہوئی کہ اگر اس نے اپنی فصلوں کو بچانے کا کوئی راستہ نہ نکالا تو اس کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ وہ رات کو سوچتا کہ کیا کرے۔ ایک دن اس نے گاؤں کے بزرگوں سے مشور...
ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہیم نام کا ایک غریب آدمی رہتا تھا۔ اس کا گھر کچی اینٹوں اور مٹی سے بنا ہوا تھا، جس کی چھت پر کھجور کے پتے پڑے تھے۔ رہیم کے پاس دو بکریاں تھیں جن کا دودھ بیچ کر وہ اپنے چار بچوں اور بیوی کا پیٹ پالتا تھا۔ ہر روز صبح سویرے وہ کھیتوں میں مزدوری کرنے جاتا، شام کو تھکا ہارا لوٹتا، مگر اس کی محنت بھی اس کی غربت کو دور نہ کر پاتی۔ پھر بھی وہ کبھی مایوس نہ ہوا۔ اس کا ایمان تھا کہ محنت اور ایمانداری کا پھل ضرور ملتا ہے۔ ایک دن گاؤں میں خبر پھیلی کہ کریم، جو اس گاؤں کا ہی ایک امیر زمیندار تھا، بیرون ملک سے واپس آ رہا ہے۔ کریم اور رہیم بچپن کے دوست تھے۔ دونوں ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے، ایک ہی دریا کنارے کھیلتے تھے۔ لیکن جب کریم کے والد نے اچانک دولت کمائی تو وہ شہر چلے گئے، پھر بیرون ملک جا بسے۔ سالوں بعد اب کریم واپس آیا تھا۔ رہیم نے جب یہ سنا تو اس کے دل میں پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ جانتا تھا کہ اب کریم کی حیثیت اس سے بہت بلند ہے، مگر پھر بھی اسے اپنے دوست سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ اگلے دن وہ کریم کے گھر پہنچا۔ کریم کا گھر بڑی حویلی جیسا تھا، ج...